Allama Yousuf Jibreel , Shah Dil Awan Ki Nazar Mien
علامہ یوسف جبریل مدھوال اعوان
مشاہیر سون صفحہ نمبر 139
تحریر : شاہ دل اعوان
علامہ محمد یوسف کی پیدائش ٧١ فروری ٧١٩١ ءمیں کھبیکی میں ہوئی۔ آپ بےمثال یاداشت کےمالک تھی۔ تاہم ایسی یاداشت اور ایسےحافظےکےباوجود علامہ نےسکول چھوڑ دیا۔ یہ صدمہ والد کےلئےجانکاہ ثابت ہوا۔ مگر اسےکیا خبر کہ قدرت کا کیا منصوبہ تھا۔ اسےکیا خبر کہ اس گرد کےگولےسےقدرت نےکیسا شاہسوار نمودار کرنےکی ٹھان رکھی ہی۔ سترہ سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوئی۔ چودہ پنجاب میں مرحوم صدر محمد ایوب خان اس وقت ( لیفٹیننٹ ایوب خان) پی ٹی آفیسر تھی۔ چودہ پنجاب کی پلٹن وزیرستان گئی وہاں پٹھانوں کو دیکھا تو اندر ایک ذہنی انقلاب برپا ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم کےدوران ایک دوسری فوجی یونٹ کےساتھ عراق گئےوہاں ایک اسلامی مسئلہ درپیش آیا۔ علامہ نےاپنےآپ کو قربانی کےلئےپیش کیا۔ کمان انگریز کی تھی۔ الزام میدان جنگ میں حکم عدولی کا تھا۔ سزا سنگین ہو سکتی تھی۔ مگر اسلام کےلئےسب کچھ منظور تھا۔ البتہ شہنشاہ معظم انگلستان کی کمیٹی نےکورٹ مارشل کےارکان کو جھاڑ پلائی اور علامہ کو نہایت ہی خفیف سزا کا اعلان ہوا۔
اسی مقام پر جسےعراق میں مصیب کہا جاتا ہےاور جہاں حضرت مسلم بن عقیل کےدو معصوم شہید بچوں محمد اور ابراہیم کا مزار ہی۔ علامہ نےایک معرکہ آرا اور محیرالعقول خواب دیکھا۔ یہ ایک ایسا روحانی تجربہ تھا جس نےقلب ماہیت کر دی۔ علامہ کو ایک مشن سونپا گیا۔ جسےسرانجام دینےکےلئےاس علمی دور میں جس نادرالوجود علمیت کی ضرورت تھی اس کےحصول کےلئےایک ابدی جنون طاری ہو گیا۔ یہ ٢٤٩١ ء کاواقعہ ہے۔ علامہ کی عمر پچیس برس تھی، تعلیم بالکل معمولی تھی۔ اپنےخاندان کےلئےروزی کمانی تھی۔ نہ کسی کالج میں پڑھا تھا۔ نہ ہی کوئی استاد تھا لیکن عشق نےوہ کر دکھایا جس کاتصور بھی نا ممکن ہی۔ سالہا سال کی انتھک اور مسلسل محنت کے نیتجےمیں علامہ نےاردو ولی دکنی سےاقبال تک فارسی رودکی سےعنصری تک، انگریزی چاسر سےشیلےاور چارلس ڈکنز تک پڑھ ہی نہیں لی بلکہ ان مشاہیر کی طرز پر طبع آزمائی بھی کر سکتا تھا۔ عربی میں عنتر بن شداد کا معرکہ آرا قصیدہ کویت کی ریت پر بیٹھ کر پڑھنا اور سردی میں ٹھٹھرنا ہمیشہ یاد رہا۔ یہی نہیں بلکہ توری زبور انجیل انگریزی نسخہ) پڑھی۔ سائنس میں فزکس، کیمسٹری، ریڈیو بائیولوجی، نیچرل سائنس پڑھی۔ سائنس کی تاریخ فلسفےکی تاریخ دنیا کی مختلف قوموں کی سیاسی اور ادبی تاریخیں پڑھیں۔ جملہ مذاہب کو تقابلی نظیہ سےجانچا۔ تہذیبوں کےتجزیئےکئی۔ قران حکیم کا خصوصی مطالعہ کیا۔ یہ جدوجہد 1982ءتک جاری رہی ۔ نتیجےمیں چودہ جلدیں قرآن حکیم کےلفظ حطمہ کی انگریزی تفسیر اور اتنی ہی جلدیں اردو میں لکھ دیں ۔ اس کےعلاوہ بھی تصانیف ہیں ۔ کئی مضامین اردو انگریزی اخباروں رسالوں میں چھپ چکےہیں ۔ شکاگو کےرسالہ Bulletin of The Atomic Scientists میں اور انگریزی میگزین Time میں بھی کچھ خطوط چھپےہیں۔ یہ علمی جدوجہد آہوں، کراہوں، جھکولوں کی طویل دردناک اور صبر آزما داستان ہےاور مشکل ہےکہ علامہ صاحب 1982 ءمیں اپنا کام ختم ہوتےہی بیمار ہو گئی۔ علامہ نےاردو شاعری بھی کی ہےجس کےمتعلق ڈاکٹر جاوید اقبال خلف الرشید علامہ اقبال نےلکھا ہی۔ ” انداز فکر حضرت علامہ اقبال کا سا ہی۔ ایک انداز سےتو انہیں کےکلام کی صدائےبازگشت ہی۔ جس نصب العین کو شاعر نےپیشِ نظر رکھ کر اپنےخیالات کا اظہار کیا ہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سےیہ دلی دعا ہےکہ اس کےحصول کےامکانات پیدا ہو سکیں“۔
ستمبر 1963 ءمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں محض حسنِ اتفاق سےعلامہ صاحب کا مناظرہ معروف جرمن سکالر یہودی خاتون مس اینی شمل سےہو گیا۔ و ہ کہتی تھی کہ قرآن حکیم اللہ کا نہیں بلکہ رسول اکرم کا کلام ہی۔ مطلب یہ ہےکہ یہ نعوذ باللہ فراڈ ہی۔ یہ ایک خطرناک قسم کا حملہ تھا اور اس کےنتائج اہلِ اسلام کےلئےتباہ کن ثابت ہو سکتےتھی۔ کیونکہ مصر کی ازہر یونیورسٹی میں مادام کو کسی نےجواب نہ دیا ۔ لاہور میں بھی یہی کیفیت تھی۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نےقران حکیم کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ اس لئےاللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کہ اچانک علامہ صاحب کو لاہور لےگئی اور اس نےجب تقریر شروع کی تو ایک گھنٹےتک لگاتار قران حکیم کی غلطیاں گنواتی رہی۔حالانکہ قران حکیم میں ایک بھی غلطی نہ تھی ۔ علامہ علاو¿الدین صدیقی جو پنجاب یونیورسٹی کےشعبہ ءاسلامیات کےسربراہ تھےصدارت کی کرسی پر تشریف فرما تھی۔ قدرت نےانہیں ترغیب دےکر کرسی چھڑوائی ۔ وہ کرسی گھسیٹ کر علامہ صاحب کےپاس پہلی صف میں لےآئے۔ انہوں نےجب صدارت چھوڑی تو مادام نےتقریر روک دی۔ اگر علامہ علاو¿الدین صدیقی یہ نہ کرتےتو مس اینی مری شمل دو گھنٹےکی تقریر پوری کر کےفتنہ فساد برپا کرکےدلی چلی جاتی۔ مگر علامہ صاحب کو موقع مل گیا ۔انگریزی میں اللہ تعالیٰ نےمہارت عطا کی تھی ۔ علامہ نےقران حکیم میں سےفزکس اور ایٹمی سائنس کےزبردست حوالےاسےسناتےہوئےپوچھا ۔ کہ مادام ! جب قران حکیم نازل ہوا کیا اس زمانےمیں ان باتوں کو سمجھنےوالا کوئی انسان دنیا میں تھا۔ کہا ۔ کہ نہیں تھا۔ تو علامہ صاحب نےکہا مادام ! اس وقت یہ باتیں صرف اللہ تعالی کی ذات ہی جانتی تھی اور اگر یہ باتیں اللہ تعالیٰ کےاِس قرآن حکیم میں ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا کلام ہونےمیں کیا شک ہی۔عورت سمجھدار تھی اور علم والی تھی۔ اتنی متاثر ہوئی کہ کرسی پر بیٹھی نہیں ،گری۔۔۔پھر ہر سال علامہ اقبال کی برسی پرلاہور بلائی جاتی اور مقالہ پڑھتی۔ مگر قرآن حکیم والا موضوع ختم کر دیا۔ 1986ءمیں اسلام آباد کی ادبی تنظیم دائرہ کی تقریب میں اینی مری شمل نےاسلام قبول کیا اور وصیت کی کہ اسےعبد الطیف بھٹائی کی قبر کےساتھ دفن کیا جائی۔ وہاں ڈپٹی کمشنر نےچار دیواری بنوا دی اور وہاں سابقہ مس اینی مری شمل کی تختی لگا دی گئی۔ غور طلب یہاں دو باتیں ہیں ایک قرآن حکیم کی ہمہ گیر آفاقیت اور دوسری یہ کہ کس طرح قدرت نےاپنےایک بندےکو علم عطا کرکےاور بلا کر اسےقرآن حکیم کےتحفظ کی توفیق بخشی ۔ علامہ صاحب کا لاہور جانا اور علامہ علائو الدین صدیقی صاحب کا کرسی گھسیٹ کر لانا اور تقریب کی صدارت کو چھوڑ دینا غیبی کرشمےتھےورنہ اُن کو کبھی بھی مادام کو جواب دینےکا موقع دستیاب نہ ہوتا۔ غور کرنےکی بات یہ ہےکہ ٹھیک 23برس بعد مادام نےاسلا م قبول کرنےکا اعلان کیا اور یاد رہےکہ قرآن حکیم بھی تیئس برس میں نازل ہوا۔
1968ءمیں صدر ایوب خان کےدور میں روٹری کلب اسلام آباد کےزیر اہتمام شہرزار ہوٹل میں بین الاقوامی سفیروں کےسامنےعلامہ یوسف جبریل کی تقریر بھی دلچسپی سےخالی نہ تھی۔ کلب کےصدر زکریا مرحوم نےتقریر کا بندوبست تو کردیا مگر آخری لمحےان کو خیال آیا کہ ساری دنیا کےسفیر اکٹھےکردئیےہیں اور تقریر کا موضوع ہی۔ قرآن حکیم اور ایٹمی سائنس اور سننےوالوں میں غیر مسلم بھی ہیں اور تقریر کرنےوالا خدا خبر اس اہلیت کا مالک ہےکہ نہیں اگر کوئی گڑبڑ ہوگئی تو بڑی تباہ کن ہوگی ۔علامہ صاحب نےاُن کےتذبزت کو بھانپ لیا۔ اللہ تعالیٰ نےتقریر میں مدد کی اور روس کےسفیر نےسٹیج پر آکر علامہ یوسف جبریل سےمصافحہ کیا اور کہاThank you gentleman! Most Thought provoking lecture I have heard in my life.محترم سب سےزیادہ فکر انگیز تقریر جو میں نےاپنی زندگی میں سنی ہےوہ آج کی تقریر ہی۔ وہ ہٹا تو امریکی آیا ۔اس نےعلامہ یوسف جبریل سےہاتھ ملایا اور وہی لفظ کہےجو روس کےسفیر نےکہےتھی۔ علامہ یوسف جبریل نےزکریا صاحب کی جانب دیکھا اس کےچہرےپر خوشی کےآثار نمایاں تھےکیونکہ تقریر کامیاب قرار دےدی گئی تھی۔ قرآن حکیم نےاپنا جلوہ دکھا کر دنیا بھر کےسفیروں کو مسحور کردیا تھا۔ اللہ اُن کےدرجات بلند فرمائی۔ آمین
Related Posts
- 52
- 49Back to Kuliyat e Gabriel سوز و نالہء جبریل (1) روحِ اقبال ہوں صورتِ جبریل آیا ہوں کاروانوں کے لئے جرسِ رحیل آیا ہوں غرقِ فرعوں کے لئے قلزم و نیل آیا ہوں فیلِِ ابرہ کے لئے ضربِ سجیل آیا ہوں تم کو پیغامِ محمد ﷺ کا سنانے کے لئے…
- 48Back to Kuliyat e Gabriel نعرہ ء جبریل ( 1) روحِ اقبالؒ ہوں میں حیرتِ جبریل بھی ہوں برقِ خاطف کی تجلی میں ابابیل بھی ہوں ریگِ بطحا میں نہاں شعلہء قندیل بھی ہوں فتنہءِ دورِ یہودی کے لئے نیل بھی ہوں خاک ہوں پائے غلامانِِ محمد ﷺ کی یہ…
- 46Back to Kuliyat e Gabriel تبصرہ جات و تاثرات علامہ یوسف جبریل کی شاعری کے متعلق محترم ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے خیالات ’’انداز فکر حضرت علامہ اقبالؒ کا سا ہے اور ایک لحاظ سے کلام انہی کی آواز کی صدائے بازگشت ہے۔ شاعر نے جس نصب العین کو پیش…
- 40
- 40It is my honor to inform you that fourth DVD of Media Productions of Yousuf Jibreel Foundation is released. Any one interested in getting it can send a blank DVD. Contents of DVD are given below. All these videos are also available online on our youtube and facebook channels. 1.…
- 39
- 38Back to Kuliyat e Gabriel لائحہ عمل اب بھنور میں جو سفینہ ہے اب بھنور میں جو سفینہ ہے ذرا ہوش کریں کچھ کریں خوفِ خدا بہرِ خدا ہوش کریں ڈوب سکتی ہے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں یہ ناؤ ملت اپنی ہے گرفتارِ بلا ہوش کریں لگ تو سکتی تھی…
- 37
- 37Back to Kuliyat e Gabriel پیشِ لفظ شاعری قطعاً مقصود نہیں بلکہ بھٹی سے اُ ٹھتے ہوئے شعلوں سے لپکتی ہوئی چنگاریاں ہیں یا اندھیری رات میں متلاطم سمندر کی لہروں کی خوفناک صدائیں ہیں جوحال سے پیدا ہو کر مستقبل میں گُم ہوتی نظر آتی ہیں اور جس طرح…
- 37It is my honor to inform you that third DVD of Media Productions of Yousuf Jibreel Foundation is released. Any one interested in getting it can send a blank DVD. Contents of DVD are given below. All these videos are also available online on our youtube and facebook channels. 1.…
- 37
علامہ محمد اقبال ترجمان حقیقت ،شاعر مشرق اور حکیم الامت فلسفی شاعر کی حیثیت سےنہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ پورےعالم اسلام میں جانےپہچانےجاتےہیں۔ آپ نےاردو کی کلاسیکی شاعری کےمخصوص استعارات اور تلازمہ کاری کو مسلم تشخص، احساس خودی، ملت اسلامیہ کےعروج کےلئےاستعمال کیا ۔ علامہ محمد اقبال نےتاریخ اسلام…
- 36
- 36
- 36
- 36
- 35
- 35
- 35
- 35Back to Kuliyat e Gabriel گریہ نیم شبی خدایا شکر ہے رکھا مرا اجر اپنے ہاتھوں میں وگرنہ کس طرح ملتی مجھے محنت کی مزدوری بڑی مشکل سے سمجھائے تھے ملت کو سب اندیشے رلا کر رکھ گئی مجھ کو یہ احساسِ مجبوری خخ رلاتی ہیں مجھے ملت کی حسن…
Share Your Thoughts
Category: Research Articles