Rat aor Din by Dr Azhar Waheed
رات اور دن
٭٭٭ڈاکٹر اظہر وحید٭٭٭
رات اور دن کا آپس میں بدلنا تغیر کی علامت ہے…. لیکن ثبات کے متلاشی کیلیے اس میں ثبات نہیں۔ تغیر کو شاعری میں ثبات مل بھی جائے‘ تو انسان کو تغیر میں ثبات نہیں ملتا۔ رات چاند سے عبارت ہے اور دن سورج کے طلوع ہونے کا اعلان ہے۔ دن معاش کی تگ و تازکی داستان ہے…. اور رات قلب کے سوز و سازکا نغمہِ جانفزا !! دن بدن ہے، رات روح!! دن عقل کے استعمال سے متحرک ہوتا ہے …. رات دل کے متحرک ہونے سے آرام پاتی ہے۔ دن کے اشغال رات کو اور رات کی مشغولیات دن میں اختیار کر لی جائیں تو انسانی زندگی غیر متوازن ہو کر رہ جاتی ہے۔ جو ذرّہ جس جگہ ہے‘ آفتاب ہے۔ اَز روئے قرآن‘ سورج کی یہ مجال نہیں کہ چاند کو جالے‘ اور نہ چاند ہی کی یہ قدرت کہ سورج کی جگہ لے۔ انسان جسم اور روح دونوں کا مرقع ہے…. جسم روح کی سواری ہے اور روح نفس کی!! فی الاصل انسان سے مراد نفسِ انسان ہے۔ نفس صرف امارہ ہی نہیں …. لوامہ، ملہمہ اور مطمئینہ بھی نفس ہی ہوتا ہے۔ جس نفس سے اعراض کرنے کا حکم ہےٗ وہ امّارہ ہے، جس کی قسم کھائی گئی ہے وہ نفسِ لوّامہ ہے، جس پر القا کیا جاتا ہے وہ مُلہمہ…. اور جس سے دل نشین خطاب کیا جاتا ہے وہ بالیقیں نفسِ مطمئنّہ ہے!!
جسم اور روح بنانے والے نے رات اور دن بھی بنائے ہیں ۔ خالقِ کون و مکاں نے رات روح کی پرداخت اور نگہداشت کیلئے نازل کی …. اور دن جسم اور اس کی پرورش کیلئے مقرر کیا۔ رات کو تسکین کا باعث کہا گیا…. قابلِ توجّہ اَمر یہ ہے کہ تسکین روح کی جا ہے‘ بدن کا مقام نہیں! رات کے خیمے میں پناہ گزیں کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو چاند کی طرف متوجہ رکھے۔ چاند کوئی بھی ہو‘ روح کے سمندر پر متصرف ہوتا ہے۔ جوار بھاٹا…. کیفیات کا سارا مد وجزر ….کسی چاند کے زیرِ اثر ہے۔ دن کو روشنی ہوتی ہے، رات کو نور! روشنی بصارت کو چندھیا دیتی ہے، نور بصیرت کو بڑھا دیتا ہے۔ مومن تو دیکھتا ہی اللہ کے نور سے ہے، اس کی فراست سے ڈرنے کا حکم ہے…. کہ فراست سیاست کا باب نہیں، سیاست میں ہر وار کا توڑ موجود ہوتا ہے، فراست آسمان سے وار کرتی ہے…. اور سب چالاکیوں کی کمرتوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
جس کی رات روشن نہ ہو‘ اس کا دن بھی تاریک ہوتا ہے۔ رات کو جاگنے والے اگر دن کو سوتے ہوئے پائے گئے‘ تو سمجھ لینا چاہییے کہ رات کو روح کی پرورش نہیں ہو سکی۔ روح کی نگہداشت نہ ہو‘ تو بدن بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ چہرے کی تاب روح کی چھاب تلک سے ہے۔ صبحدم چہرہ بولتا ہے کہ رات کیسے گذری۔ شب بیداری عیش و عشرت سے عبارت نہیں بلکہ عبادت اور غوور و فکر کی جائے اعتکاف ہے۔ شب بیداری کے ساتھ صبح خیزی نہ ہو تو یہ شب بیداری نہیں‘عیش کوشی ہے۔
رات کے سمے نور کی بجائے روشنیوں کی طرف راغب ہونے والا اپنے لیے دن کا سماں بھی تاریک کر لیتا ہے۔ ذہن ِ رسا کیلئے رات ایک رسائی ہے…. عالمِ بالا کی طرف !!! رات بدن کی نہیں‘ روح کی جائے قرار ہے! روح لطافت کی راہ نہ پائے تو مضطرب رہتی ہے۔ روح کی طاقت لطافت ہے…. کثافت اسے مضمحل کرتی ہے۔ اس فرق کو وہی سمجھیں گے جو روشنی اور نور میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ روشنی اور نور جدا حقیقتیں ہیں۔ جنہیں روشنی مرغوب ہوتی ہے‘ وہ نور کو تاریکی سمجھتے ہیں …. ظاہر ہے ٗ ظاہر پرست آنکھ کو نور میں تاریکی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔ وہ نور کو دیکھ نہیں سکتی! کعبے کے پردے کا رنگ سیاہ ہے…. لیلیٰ بھی سیاہ فام…. قیس نے شاعر کی زبانی کہلا بھیجا ہے کہ قرآن کے الفاظ جس روشنائی سے لکھے جاتے ہیں اس کا رنگ بھی سیاہ ہے !! نور کا رنگ دیکھنے کیلئے کم از کم وہ آنکھ چاہیے ‘جو قیس کے پاس تھی۔ بہت سے حقائق کو دیکھنے کیلیے جاننا ضروری ہوتا ہے…. اور بہت سی حقیقتوں کو جاننے کیلئے پہلے انہیں ماننا ضروری ہوتا ہے۔ ہماری اناٹومی کی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہوتا تھا، ابھی تک یاد ہے Eyes cannot see what mind does not know ۔۔۔۔ یہ دانش درست ہے‘ لیکن نامکمل ہے…. کیونکہ جاننے سے پہلے ماننا بھی ایک مرحلہ ہے…. اوربہت ضروری مرحلہ ہے۔ جو طبیب کو طبیب ہی تسلیم نہ کرے‘ وہ طب کا اسلوب نہیں جان سکے گا…. وہ کب جان پائے گا کہ علم الابدان کے باب میں طبیب اسے کیا سکھانا چاہتا ہے۔ طبیب کے بغیر طب کیا ہے…. بجز ایک قیاس آرائی کے !! جو ماننے سے گریزاں ہے‘ اس کا جاننا بھی ناقص ہوگا…. کیونکہ وہ جو کچھ بھی جانتا ہے‘ وہ اس کے ذہن کی جگالی ہوتی ہے۔ اپنی فہم کا اسیر….اپنی ہی عقل کی سرکس میں جھولنے والا…. اپنی ہی طے شدہ منطق کے کرتب دکھانے والا …. اس ماوارائی کلام کی تفہیم سے قاصر رہتا ہےٗ جس کا ماخذ انسانی عقل نہیں!! ہمارے حواسِ خمسہ کا محتاج علم اتنا ہی محدود ہوتا ہے‘جتنا ہمارے حواس۔ سائنسی آلات گو ہمارے حواسِ خمسہ کی رینج بڑھاتے ہیں لیکن انہیں تحدید سے آزاد نہیں کرتے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ظاہر اور غیب میں فرق صرف جاننے اور نہ جاننے کے فرق جیسا ہے۔ ایک شخص کسی حقیقت سے آگاہ ہے ، اور دوسرا اس سے آگاہ نہیں تو موخرالذکر کیلئے وہ حقیقت غیب قرار پائے گی اور پہلے کیلئے حاضرو موجود۔ ایسا ہر گز نہیں۔ غیب اور حاضر کا علم relative نہیں، ان میں نسبت جاننے اور نہ جاننے کی نہیں‘ بلکہ ماننے اور نہ ماننے کی ہے۔ عالمِ غیب وہ ہے ‘ جس تک رسائی نہ تو حواسِ خمسہ کی ہے ، اور نہ ہی انسانی عقل و فہم و دانش کی! جنت ، دوزخ ، میزان ، صراط ، مابعد کا سارا بیان غیب سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے جاننے کیلئے ہمیں ماننے کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ بصورت ِ دیگر ہم تقابلی موازنہ مذاہب ِ عالم comparative study of world’s religions کے گورکھ دھندے میں کھو کر رہ جائیں گے۔ درحقیقت” یومنون بالغیب“ کا مطلب رسولِ کریم خاتم البنیین ﷺ پر ایمان لانا ہے۔ جب تک رسولِ خداﷺ پر ایمان نہ ہوگا ، خدا اور روزِ آخر پر “ایمان” بھی ایک ذہنی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ غیب کے علاوہ ہر دوسرا علم بنیادی طور پر مادّے سے تعلق رکھتا ہے…. توانائی کے کرشمات اور زمانی واقعات کی آگہی بھی اپنی اصل میں مادّی آگہی ہے۔ تونائی مادّے سے جدا نہیں۔ زمان‘ مکان سے علیحدہ نہیں …. یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہیں، ایک کو جدا کریں تو دوسرا بے معنی ہو جاتا ہے۔ مادّی علم سے مادّے پر تصرفات تو حاصل ہو جاتے ہیں ‘ لیکن انسان اپنے نفس کے زیرِ تصرف رہتا ہے…. اور نتیجتاً اپنے وجود سے ورا حقائق کا شاہد نہیں ٹھہرتا۔ نفس کے تصرف سے آزاد ہونے کو تزکیہِ نفس کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ نجات اور نروان بھی یہی ہے!
آمدم برسر مطلب ‘ جس طرح جسم ظاہرہے اور روح باطن ، اسی طرح دن ظاہر ہے اور رات باطن !! باطن سے آشنائی نہ ہو‘ تو ظاہر باطل ہوجاتا ہے ….کارِ عبث قرار پاتا ہے۔ روح کی حقیقت کا منکر ‘جسم سے بھی عدل نہیں کر سکتا۔ رات اگر روحانیت سے متعارف نہ ہوسکے‘ تو دن اپنی عقل کی روشنی سمیت مادے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے گا…. کیونکہ باطن ظاہر پر متصرف ہوتا ہے۔
رات کے تصرفات عجب ہیں….. اگر رات کو نفس کے تصرف سے نجات مل جائے تو رات روح کی سیر کرواتی ہے، افکارِ عالیہ سے روشناس کرواتی ہے…. اور اِس کائنات کی روح سے ہمکلام ہونے کا شرف عطا کرتی ہے!!
(روزنامہ “نئی بات” میں ہفتہ وار کالم “عکسِ خیال”)
www.azharwaheed.com www.facebook.com/dr.azharwaheed wasifcentre@gmail.com
User Review
( votes)Related Posts
- 84
- 82محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد…
- 78
- 77*تلاش گمشدہ* ہم سے *”خلوص“* گم ہو گیا ہے۔ اس کی عمر کئی سو سال ہے۔ بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہو گیا ہے۔ گھر میں موجود *”خودغرضی“* کے ساتھ ان بن ہو جانے پر ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔ اُس کے بارے میں گمان ہے کہ…
- 77Back to Kuliyat e Gabriel تبصرہ جات و تاثرات علامہ یوسف جبریل کی شاعری کے متعلق محترم ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے خیالات ’’انداز فکر حضرت علامہ اقبالؒ کا سا ہے اور ایک لحاظ سے کلام انہی کی آواز کی صدائے بازگشت ہے۔ شاعر نے جس نصب العین کو پیش…
- 77غلط خاکے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دینے والی تفتیش :زینب اور اس جیسی 11 کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انکے قتل کے پیچھے چھپے خوفناک و شرمناک حقائق اس رپورٹ میں ملاحظہ کیجیے لاہور(ویب ڈیسک) زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی…
- 72
- 71Back to Kuliyat e Gabriel ضربِ مومن رباعی ادا مست مئے توحید کی ہر عاشقانہ ہے ادا مست مئے توحید کی ہر عاشقانہ ہے زمین پر ہے وجود اس کا فلک پر آشیانہ ہے جمالِ یار کا پرتوَ جنوں کو تازیانہ ہے ٹھکانا اس کا جنت ہے یہ دنیا قید…
- 69مجھے واعظ یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت یوسف ۴ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ حضرت یوسف۴ نے اپنے ملک کو "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نھیں مرنے پایا۔ یہ تو بتاتے…
- 69مجھے واعظ یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت یوسف ۴ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ حضرت یوسف۴ نے اپنے ملک کو "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نھیں مرنے پایا۔ یہ تو بتاتے…
- 68امیدواراورووٹر ایک امیدوار ووٹ مانگنے کے لیے ایک عمر رسیدہ شخص کے پاس گیا اور ان کو ایک ہزار روپیہ پکڑواتے ہوئے کہا حاجی صاحب اس بار ووٹ مجھے دیں۔ حاجی صاحب نے کہا: مجھے پیسے نہیں چاہیےووٹ چاہیے تو ایک گدھا لادیں، امیدوار گدھا ڈھونڈنے نکلا مگر کہیں بھی…
- 66Chinese are great because they understand it only a commerce person can understand it deeply اگر پاکستان کے 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 30٪ لوگ روزانہ 10 روپے کا جوس پیں تو مہینے بھر میں تقریبا "1800 کروڑ" روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ اور اگر آپ انہی پیسوں سے…
- 66*آج پیزا نہیں کھاتے* (سبق آموز) *بیوی:* آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔ *شوہر:* کیوں؟ *بیوی:* کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی *شوہر:* کیوں؟ *بیوی:* اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔ *شوہر:* ٹھیک ہے،…
- 66عصرِ حاضر وہ اشکِ خونِ گرہ گیر مشکبو نہ رہا وہ اشکِ خونِ گرہ گیر مشکبو نہ رہا قتیلِ عشق کے باطن کی آرزو نہ رہا رگوں میں جوش حمیت کی آبرو نہ رہی دلوں میں جوشِ اخوت وہ کو بہ کو نہ رہا تڑپتے دل کی پکاروں کی بے…
- 66Back to Kuliyat e Gabriel لائحہ عمل اب بھنور میں جو سفینہ ہے اب بھنور میں جو سفینہ ہے ذرا ہوش کریں کچھ کریں خوفِ خدا بہرِ خدا ہوش کریں ڈوب سکتی ہے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں یہ ناؤ ملت اپنی ہے گرفتارِ بلا ہوش کریں لگ تو سکتی تھی…
- 65Back to Kuliyat e Gabriel پیشِ لفظ شاعری قطعاً مقصود نہیں بلکہ بھٹی سے اُ ٹھتے ہوئے شعلوں سے لپکتی ہوئی چنگاریاں ہیں یا اندھیری رات میں متلاطم سمندر کی لہروں کی خوفناک صدائیں ہیں جوحال سے پیدا ہو کر مستقبل میں گُم ہوتی نظر آتی ہیں اور جس طرح…
- 64Back to Kuliyat e Gabriel گلہائے عقیدت علامہ اقبال ؒ مرحوم کے حضور میں سرود رفتہ باز آید بیاید نسیمے از جحاز آید بیاید دو صد رحمت بجان آں فقیرے دگر دانائے راز آید بیاید دگر آید ہماں دانائے رازے ندارد جز نوائے دل گدازے دے صد چاک و چشمے…
- 64
- 57Back to Kuliyat e Gabriel حمد مرے اللہ مرے مولا مرے مالک مرے آقا ترے ہی واسطے ساری ثنائیں، ساری تعریفیں سدا ذکر الہی میں رہے مشغول دل میرا رہیں میری زباں پر تا قیامت جاری تعریفیں مرے اللہ مرے مولا تری تعریف کیوں کر ہو کہ میں اک بندہء…
- 56Back to Kuliyat e Gabriel نعرہ ء جبریل ( 1) روحِ اقبالؒ ہوں میں حیرتِ جبریل بھی ہوں برقِ خاطف کی تجلی میں ابابیل بھی ہوں ریگِ بطحا میں نہاں شعلہء قندیل بھی ہوں فتنہءِ دورِ یہودی کے لئے نیل بھی ہوں خاک ہوں پائے غلامانِِ محمد ﷺ کی یہ…
Share Your Thoughts
Category: General Articles